ادھوری محبت

دسمبر شروع ہو چکا تھا۔ حسب معمول میں آفس کے لیے نکلا توگھر سے ایک دو گلیاں چھوڑ کر راستے میں ایک خوبرو حسینہ نظر آئی جو پودوں کو پانی دے رہی تھی پتلی کمر گوری سی رنگت معصوم سا پھول جیسا چہرہ میں روزانہ اسی راستے سے گزرتا تھا لیکن اتنا حیسن اتفاق آج پہلی دفعہ ہوا تھا۔شائد یہ لوگ نئے شفٹ ہوے تھے ادھر۔آفس میں سارا دن صبح کا منظر ہی میرے عصاب پر سوار رہا۔ گھر واپس آتے ہی اسی گھر کے سامنے سے گزرا تو لائٹیں جل رہی تھی اور دو گاڑیاں بھی باہر کھڑی تھی۔میں روزانہ شام کو جاگنگ کے لیے نکلتا تھا۔آج جاگنگ کی بجائے اسی گھر کی طرف رخ کیا۔شائد وہ پھر نظر آ جائے۔کچھ دیر بعد گیٹ کھلا پھر وہی حسین منظر اس کے ٹریک سوٹ سے لگ رہا تھا شائد وہ بھی کسی جگہ جاگنگ یا جم وغیرہ کے لیے جا رہی ہے

اس نے ایک دم میری طرف دیکھا اور مینے دھیان دوسری طرف کر لیا۔خیر مینے ٹائم نوٹ کیا تو اگلے دن سیم ٹائم پر میں بھی گاڑی لے کر جاگنگ کے لیے نکلا اور گاڑی اس کے گھر سے کچھ فاصلہ پر پارک کی۔جیسے ہی وہ نکلی مینے اس کا تعاقب کیا۔اس نے گاڑی پارک کی اور پارک میں چلی گی۔لیکن میرے پاس اس پارک اور جم کی ممبرشپ نہیں تھی لہٰزا مجھے واپس لوٹنا پڑا۔مینے ارادہ کیا کل سے میں بھی اسی پارک اور جم کی ممبرشپ لوں گا۔ اگلے دن آفس سے چھٹی ہوئی تو ممبر شپ کے لیے گیا تو پتا چلا صبح نو بجے سے دن دو بجے تک آفس کھلا ہوتا ہے۔افسردہ سا چہرہ لے کر میں پھر اسی طرح اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اس کے گھر پاس رک گیا۔اگلے دن آفس کی بجائے سب سے پہلے پارک گیا۔ضروری ڈاکومنٹس فل کر کے پارک کی ممبر شپ لی اور آفس چلا گیا

انتظار کرنے لگا کب شام ہو گی کب پارک جاوںگا۔ یہ شائد پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کسی لڑکی پر اتنا دل ہار بیٹھا میں۔آفس سے گھر آیا اور سیم ٹائم پر پارک چلا گیا اس سے کچھ فاصلے پر مینے گاڑی پارک کی۔ اس نے دائیں طرف سے جاگنگ کا راؤنڈ شروع کیا اور مینے بائیں طرف سے۔ جب درمیان میں کراسنگ ہوئی تو اس نے اچانک دیکھا اور گزر گئ شائد وہ پہچان گئ تھی مجھے۔ اگلے چکر میں گزرتے گزرتے بولی کانٹوں پر پاوں رکھیں تو پاوں ہی زخمی ہوتا ہے۔جوابا مینے کہا ارادہ کر لوں تو آگ میں بھی کود جاتا ہوں۔اس کے بعد کافی دن ہو گئے وہ نظر نہیں آئی پودوں کا پانی بھی اب مالی دیتا تھا

میں روزانہ اسے سوچتا اور دن گزر جاتا تقریباً ایک ماہ بعد اسے صبح پھر پودوں کو پانی لگاتے دیکھا شام کو پارک میں جاگنگ کے لیے گیا تو وہ پاس آ کر رک گئ۔اور کچھ پیسے مانگے اس نے مینے بولا پرس گاڑی میں ہے جا کر دیتا ہوں گاڑی تک جاتے اس نے بتایا میرا نام مریم ہے تعارف وغیرہ کروانے کے بعد مینے اس پوچھا اتنے دن کہاں غائب تھی تو بولی بہن کے پاس چھٹیاں گزارنے اٹلی چلی گئ تھی۔ خیر اسے پیسے دئیے اور وہ چلی گئ۔ اس کے اس طرح پہلی دفعہ ہی پیسے مانگنے پر ذہن میں اس کی بات یاد آئی کانٹوں پر چلیں تو زخمی پاوں ہی ہوتے ہیں۔لیکن اس کے پاس اتنے مہنگے برانڈ کا پرس موبائل فون اتنی اچھی گاڑی اور وہ مجھ سے چند ہزار ہی کیوں مانگے گی! کچھ دن بعد پھر اسی طرح اس سے ملاقات ہوئی توپھر اس نے پیسے مانگے اور مینے دے دیے۔

ایک دن آ کر رکی اور بولی آج کھانا اکھٹے کھائیں گے۔ ایک ریسٹورینٹ کا بتا کر چلی گئ کہ آٹھ بجے ادھر آ جانا۔جاتے جاتے نمبر دے گئ اپنا۔مقررہ وقت پر وہ بھی پہنچ گئ کھانا کھایا بہت ساری باتیں کی۔ جاتے وقت وہ ایک پارسل دے گی اس وعدے کے ساتھ بولی گھر جا کر چیک کرنا۔گھر گیا تو اندر پیسے تھے جو مینے اسے دیے تھے ساتھ اس نے لکھا تھا مجھے ضرورت تو نہیں تھی بس جان بوجھ کر مینے لیے تھے۔وقت گزرتا گیا دوستی آہستہ آہستہ محبت میں تبدیل ہونے لگی۔ فون پر گھنٹوں باتیں مہینے میں ایک دو دفعہ ہم باہر ڈنر کرتے تھے۔اس طرح سال گزر گیا اور دسمبر کا مہینے شروع ہو چکا تھا۔ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔لیکن میری ماں نے میرا رشتہ بچپن میں ہی سونیا سے تہہ کر دیا۔سونیا کا لاسٹ سمیسٹر چل رہا تھا۔

سونیا کے گھر والوں نے پیغام بھی بھیجا کہ سونیا کی پڑھائی کمپلیٹ ہو رہی ہے ہم اب چاہتے ہیں آپ شادی کے لیے مناسب وقت بتا دیں تاکہ جلد از جلد یہ فرض ادا کریں۔ جس کا ذکر مینے مریم سے بلکل نہیں کیا تھا۔ایک دن مریم بولی رات کو ہمارے گھر آنا میرے امی ابو آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔رات کو مریم کے امی ابو سے ملا تو وہ بہت ہی اچھی طبیعت کے مالک تھے۔ ان کے ساتھ ڈنر کیا چائے پی انھوں نے بتایا میری تین بیٹیاں ہیں دو بیٹیاں کنیڈا میں ہوتی ہیں۔ مریم سب سے چھوٹی ہے۔مریم کی ماما نے بتایا ہے آپ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو۔آپ کسی دن اپنے گھر والوں کو ہمارے گھر ڈنر پر لے کر آو۔میں سمجھ گیا یہ رشتے کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں ڈرتا امی کے آگے افف بھی نہیں کرتا تھا۔ تو ان کو مریم کا کیسے بتاتا دوسری طرف سونیا کے گھر والوں نے بھی پیغام بھیجا تھا شادی کی ڈیٹ فکس کریں۔ میں اب عجیب سی کشمکش میں پڑھ گیا۔مینے انکل کو بولا ضرور اس کے ساتھ ہی جلدی سے اجازت چاہی۔مریم کا میسج آئے 20دسمبر کو ہم کنیڈا جا رہے ہیں آپ جلدی سے اپنے گھر والوں کو لے کر آو تاکہ رشتے کی بات ہو۔

مینے ڈرتے ڈرتے امی کو خوشگوار موڈ میں دیکھتے ہوے مریم کا تھوڑا سا تعارف کروایا پھر کیا تھا جیسے قیامت آ گئ ہو۔امی نے ابو کو بھی سب بتا دیا۔امی سے ہمیشہ ڈانٹ ہی پڑتی تھی لیکن ابو ہمیشہ پیار سے سمجھاتے تھے۔ابو کہتے بیٹا تمھارا رشتہ بچپن سے تہہ ہے اب ایسا ہونا نا ممکن ہے۔پورے خاندان میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔خیر اگلے دن مینے ہمت کر کے مریم کو سب بتا دیا۔مریم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو نکل رہے تھے۔تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے کیوں چھپایا یہ سب کیوں میری زندگی برباد کی۔تمھاری خاطر مینے امیر سے امیر گھرانوں کے رشتے بھی چھوڑے۔تمھیں اپنی پہلی اور آخری محبت سمجھا لیکن تم نے میرے سارے خواب ادھورے چھوڑ دیے۔بہت سمجھایا مینے مریم کو لیکن وہ جیسے پاگل ہو گئ تھی اونچی اونچی چیخیں مار رہی تھی ارد گرد سب لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے۔وہ رات مینے جاگتے گزاری۔ پوری رات سوچتا رہا جب میری ماں نے میرا رشتہ بچپن میں تہہ کر دیا تھا تو مینے ایسا کیوں کیا۔اگلے دن دیکھا تو مریم کا نمبر مسلسل آف جا رہا تھا نا وہ جاگنگ کے لیے جا رہی تھی نا پودوں کا پانی دے رہی تھی۔میں ڈرتا اس کے گھر بھی نہیں جا رہا تھا۔

دو دن بعد بیس تاریخ کو اس نے اٹلی جانا تھا۔اچانک فون کی بل بجی فون اٹھایا تو مریم نے شام کو پارک میں ملنے کا بولا۔شام کو اس کے پاس گیا نا میک اپ نا اب وہ ہنسی اداس سا چہرہ مینے مریم کو بولا میری غلطی ہے مجھے معاف کر دو وہ روتے روتے میرے گلے لگ گئ اور بولی شائد میری قسمت میں ادھوری محبت تھی۔کہتی بہن کے پاس جاوں گی تو دل لگ جائے گا۔ اب شائد واپس پاکستان نا آوں تمھارے ماں باپ جیسے کہتے ہیں ویسے کرو جاو سونیا سے شادی کرو۔آج میری شادی کو چارل سال ہو گئے ہیں جب بھی دسمبر آتا ہے تو مریم کی طرف اسے پھولوں کا گلدستہ میرے آفس پہنچ جاتا ہے۔اسی طرح میں بھی مریم کو پھول اور ڈھیر ساری چاکلیٹ سونیا سے چھپ کر بھیج دیتا ہوں کیونکہ مریم کو چاکلیٹس بہت پسند تھی۔مریم نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ جب بھی اسے شادی کا کہتا ہوں تو وہ آگے سے کہتی ہے میری قسمت میں ادھوری محبت تھی بس۔

میں اکثر سوچتا ہوں مینے ایسا کیوں کیا جب بچپن سے میرا رشتہ تہہ تھا۔لیکن آجکل معاشرے میں یہ عام ہو چکا ہے۔مجھ جیسے بہت سے لڑکے جن کے آلریڈی رشتے خاندان میں تہہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ بہت ساری لڑکیوں کی ایسے زندگی تباہ کر دیتے ہیں۔ وقتی دوستی یا ٹائم پاس یا چھوٹی محبت کی خاطر ہم کتنا بڑا دھوکہ دے جاتے ہیں۔بجائے ہم کسی سے جھوٹی دوستی یا محبت کریں محض ٹائم پاس کرنے کی خاطر۔ ہمیں چاہیے دوسرے کو سچ بتا دیں تاکہ ہماری وجہ سے کسی کی زندگی تباہ نا ہو۔لڑکیاں بہت معصوم ہوتی ہیں اور باتوں میں بھک جاتی ہیں۔

نوٹ: یہ ایک فرضی کہانی تھی جو بیٹھے بیٹھے لکھ دی مینے۔لیکن حقیقت میں اس طرح کی کہانیاں روز سننے کو ملتی ہیں۔

خوش رہیں مسکراتے رہیں۔

Standard

Leave a comment