اندھا اعتماد۔

میں ان دنوں بزنس کی وجہ سے کافی پریشان تھا۔اپنی فیکٹری اور فیکٹری کی جگہ سیل کر چکا تھا۔ کچھ نیا بزنس شروع کرنے کا سوچ رہا تھا۔دوست نے نئی گاڑی خریدنی تھی تو اتفاق سے اپنے ایک دوست کے ساتھ گوجرانوالہ کے ایک مشہور و معروف گاڑیوں کے شو روم پر جانا ہوا۔

ہم نے وہاں جا کر گاڑیوں کے ریٹ وغیرہ چیک کئیے لیکن کوئی گاڑی پسند نا آئی۔شوروم کے مالک عامر صاحب انتہائی مِلن نثار تھے۔بولے کچھ دن تک نئی گاڑیاں آ جائیں گی میں آپ کو کال کردوں گا۔امید ہے آپ کو مناسب ریٹ میں آپ کی پسند کی گاڑی مل جائے گی۔ہم نے اجازت چاہی تو بولے سردی کافی ہے اور میرا اصول ہے میں چائے اور کھانے کے بغیر نہیں جانے دیتا۔کھانا تو ہم گھر سے کھا کر نکلے تھے لیکن چائے کی دعوت قبول کر لی۔اور کھانے کا ہم نے وعدہ کیا جب اگلی دفعہ آئیں گے تو کھانا بھی آپ سے کھا لیں گے۔چائے کے ساتھ عامر صاحب نے ڈرائی فروٹس میں چلغوزے پستہ کاجو بادام بھی پیش کئیے۔ہم کافی متاثر ہوئے۔واپسی پر ہم سوچ رہے تھے۔آجکل تو کوئی سادہ چائے پلا دے تو غنیمت ہے۔

کچھ دن بعد عامر صاحب کے شوروم سے کال آئی نئی گاڑیاں آ گئ ہیں ۔ہم شوروم پر گئے تو ہمیں مناسب قیمت پر گاڑی بھی پسند آ گئ۔گاڑی خریدنے کے بعد عامر صاحب نے کھانے کا وعدہ یاد کروایا تو ہم شنواری پر مٹن کرائی کھانے ان کے ساتھ چلے گے۔راستے میں سگنل پر گاڑی رکی تو ایک مانگنے والا آیا تو عامر صاحب نے جیب سے ہزار کا نوٹ نکال کر اسے دے دیا۔کھانے کے دوران عامر صاحب سے کافی تفصیل سے بات ہوئی کچھ اپنا حال سنایا انھیں۔ کھانا کھانے کا بعد جب بل آیا تو عامر صاحب نے وہاں بھی کافی زیادہ ٹپ دے دی۔میں بزنس کے پوائینٹ آف ویو کے حوالے سے سب دیکھ رہا تھا۔خیر اجازت چاہی اور واپسی پر ہم یہ سوچتے رہے کہ اس کام میں کافی پیسہ ہے۔

کچھ دنوں بعد عامر صاحب کی کال آئی بولے آج شوروم پرایک چھوٹا سا ڈنر رکھا ہے آپ بھی ضرور تشریف لائیے گا۔ڈنر کے بعد انھوں نے کچھ دوستوں کو خاکی پیکٹ دینا شروع کر دئیے۔پوچھنے پر کہتے یہ ان کا پرافٹ ہے کچھ دوست گاڑیاں سیل کے لیے ادھر دے جاتے ہیں کچھ نے پیسے انویسٹ کئیے ہیں۔ ماہانہ جو بھی پرافٹ بنتا ہے ان کو دے دیتا ہوں۔

اسی طرح عامر صاحب کے ساتھ کچھ عرصہ دعوتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔جب بھی ان کے پاس جانا ہوتا ہمیشہ کی طرح وہ غریبوں میں اچھی خاصی رقم تقسیم کر دیتے تھے۔ مہنگے سے مہنگے برانڈ کے سیگریٹ ٹیبل پر پڑے ہوتے تھے۔ دوستوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میرے پاس فیکٹری اور پلاٹ کے جو پیسے تھے مینے بھی انویسٹ کر دئیے۔عامر صاحب کے گھر دو چار دفعہ جانا ہوا ان کی بیگم بھی بہت مِلن نثار تھی۔عامر صاحب کے ساتھ اتنا اچھا تعلق بن گیا تھا اکثر لاہور میں جب فیملی کے ساتھ جاتا تو عامر صاحب شوروم پر کافی بزی ہوتے تھے۔تو جاتے جاتے ان کی بیگم کو بھی ہم لاہور ڈراپ کر دیتے تھے۔ عامر صاحب خود گوجرانوالہ ایک سوسائٹی میں رہتے تھے اور ان کے سسرال لاہور میں تھے۔ آٹھ سال شادی کو ہو گئے تھے لیکن اولاد نہیں تھی ان سے ہر ماہ مجھے پرافٹ مل جاتا تھا میں کافی خوش تھا۔ مینے اپنے کافی دوستوں کو عامر صاحب سے ملوایا بہت سارے دوستوں نے میری طرح پیسے بھی انویسٹ کئیے۔

عید قریب آ گئ تھی عید کی چھٹیوں کے بعد شوروم بند تھا۔ عامر صاحب کا نمبر بھی بند جا رہا تھا۔ان کے گھر گئے تو پتا چلا وہ کسی اور جگہ شفٹ ہو گئے ہیں۔ ہمارے علاوہ اور بھی بہت سارے لوگ تھے جنھوں نے پیسے انویسٹ کئیے تھے۔ آخرکار سب نے مل کر پولیس کو کمپلین کئ اور شوروم کا دروازہ توڑا وہاں صرف ایک خط پڑا تھا جس پر لکھا تھا آپ سب دوستوں سے معزرت مجھے تلاش کرنے کی کوشش مت کرنا کیونکہ میں پاکستان چھوڑ چکا ہوں۔جس گھر میں وہ رہتے تھے وہ کرایہ کا مکان تھا جو کسی پراپڑتی ڈیلر کے تھرو حاصل کیا گیا تھا۔سب ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ آپ ان کی بیگم کو سسرال چھوڑ کر آتے تھے تو ان کے سسرال جاتے ہیں۔لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا ان کی بیگم لاہور یادگار کے پاس اتر جاتی تھی وہاں ان کا ڈرائیور ہوتا تھا آگے اس کے ساتھ چلی جاتی تھی۔

اس واقع کو تقریباً آٹھ سال ہو گئے ہیں ۔یہ ایک سچا واقع ہے جو میرے ایک جاننے والے کے ساتھ پیش آیا تھا۔نا آج تک عامر صاحب ملے نا ان کی بیگم ۔سب کے جتنے جتنے پیسے تھے سب ڈوب گئے۔اس لیے کسی اجنبی پر اندھا اعتماد کر کے اپنی محنت کی کمائی برباد نا کریں۔اس طرح کے جو نوسرباز ہوتے ہیں وہ دکھاوے کے لیے پہلے خود پیسے خرچ کرتے ہیں اعتماد حاصل کرتے اور اس کے بعد بہت بڑا فراڈ کر جاتے ہیں۔اور ہمارے پاس ہھر پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔پولیس انسوٹیگیشن میں سب کا ایک ہی جواب تھا چائے مٹن اور مانگنے والوں کو ہزار ہزار کا نوٹ دیکھ کر ہم اس کے فریب میں آگئے۔ ۔شوروم کا نام مینے خود مینشن نہیں کیا۔

خوش رہیں خوشیاں بانٹیں ☺️

Standard

Leave a comment