درخت لگائیں

پاکستان میں ہر سال گرمی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ماحولیاتی آلودگی بڑتی جا رہی ہے۔اور آکسیجن کی کمی بھی ہو رہی ہے ۔جس کی مین وجہ درختوں کا انتہائی کم ہونا ہے۔درخت ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔گرمی کی شدت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پاکستان میں گرمی کی شدت میں اضافہ درختوں کاانتہائی کم ہونے کی وجہ سے ہے۔ پودے نا لگا کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو غیر محفوظ کر رہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل پاکستان کے کیپیٹل سٹی اسلام آباد میں سی ڈی اے نے بہت سارے درختوں کو کاٹا جس پر صحافی جویریہ صدیق اور دیگر لوگوں نے آواز اٹھائی۔ سی ڈی اے کا کہنا تھا یہ درخت سیکورٹی ایشو میں رکاوٹ ہیں۔اس لیے ان کو کاٹا گیا۔اسلام آباد کا یہ حال ہے تو باقی شہروں کا کیا حال ہو گا۔میں جب چھوٹا تھا تو اپنے گاوں چھٹیاں گزارنے جاتا تھا راستے میں نہر آتی تھی جہاں بہت سارے درخت تھے۔اور آج نہر کے دونوں کنارے خالی ہیں۔ایسے لگتا جیسے یہاں کبھی درخت ہی نہیں تھے۔ گاوں کے لوگ وہاں سرکاری ڈیوٹی پر جو گارڈ ہے اس کو چند پیسے دے کر رات کو درخت کاٹ لیتے۔اور لکڑی کو جلانے کے کیے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جویریہ صدیق جو کس تعارف کی محتاج نہیں انھوں نے پودے لگانے کے حوالہ سے آواز اٹھائی (آجکل وہ ڈیم بناؤ پاکستان کی مہم کا حصہ ہیں) جو آج پورے پاکستان کی آواز بن گئ ہے۔ جویریہ صدیق جنھوں نے مختلف ہیش ٹیگ سے اس مہم کا آغاز کیا (#یوم_شجرکاری #درخت_لگاو_پاکستان #سرسبزو_شاداب_پاکستان #یوم_شجرکاری ) ا

اس کے علاوہ جویریہ صدیق نے پودوں کے حوالہ سے اپنے فالورز اور فینز کے لیے فیس بک یوٹیوب اور ٹوئیٹر پر #PlantATreeChallengePK کے ہیش ٹیگ کے ساتھ چیلنج دیا۔ اور ساتھ پودوں کے حوالہ سے کافی معلومات بھی شئیر کیں۔جویریہ صدیق کہتی ہیں پودے لگائیں اور آنے والی نسلوں کو محفوظ بنائیں پودے لگانا صدقہ جاریہ ہے جتنے زیادہ پودے اتنی کم آلودگی۔جویریہ صدیق جو کہ کافی عرصہ سے پودوں کی کمپین کر رہی ہیں۔ انھوں نے یوٹیوب وڈیو پیغام میں مجھے بھی #PlantATreeChallengePK میں شامل کیا۔ جو میرے لیے انتہائی خوشی کا باعث ہے۔سب سے پہلے انھوں نے خود مورنگا کا پودا لگا کر اس چیلنج کا آغاز کیا۔

Standard

ادھوری محبت

دسمبر شروع ہو چکا تھا۔ حسب معمول میں آفس کے لیے نکلا توگھر سے ایک دو گلیاں چھوڑ کر راستے میں ایک خوبرو حسینہ نظر آئی جو پودوں کو پانی دے رہی تھی پتلی کمر گوری سی رنگت معصوم سا پھول جیسا چہرہ میں روزانہ اسی راستے سے گزرتا تھا لیکن اتنا حیسن اتفاق آج پہلی دفعہ ہوا تھا۔شائد یہ لوگ نئے شفٹ ہوے تھے ادھر۔آفس میں سارا دن صبح کا منظر ہی میرے عصاب پر سوار رہا۔ گھر واپس آتے ہی اسی گھر کے سامنے سے گزرا تو لائٹیں جل رہی تھی اور دو گاڑیاں بھی باہر کھڑی تھی۔میں روزانہ شام کو جاگنگ کے لیے نکلتا تھا۔آج جاگنگ کی بجائے اسی گھر کی طرف رخ کیا۔شائد وہ پھر نظر آ جائے۔کچھ دیر بعد گیٹ کھلا پھر وہی حسین منظر اس کے ٹریک سوٹ سے لگ رہا تھا شائد وہ بھی کسی جگہ جاگنگ یا جم وغیرہ کے لیے جا رہی ہے

اس نے ایک دم میری طرف دیکھا اور مینے دھیان دوسری طرف کر لیا۔خیر مینے ٹائم نوٹ کیا تو اگلے دن سیم ٹائم پر میں بھی گاڑی لے کر جاگنگ کے لیے نکلا اور گاڑی اس کے گھر سے کچھ فاصلہ پر پارک کی۔جیسے ہی وہ نکلی مینے اس کا تعاقب کیا۔اس نے گاڑی پارک کی اور پارک میں چلی گی۔لیکن میرے پاس اس پارک اور جم کی ممبرشپ نہیں تھی لہٰزا مجھے واپس لوٹنا پڑا۔مینے ارادہ کیا کل سے میں بھی اسی پارک اور جم کی ممبرشپ لوں گا۔ اگلے دن آفس سے چھٹی ہوئی تو ممبر شپ کے لیے گیا تو پتا چلا صبح نو بجے سے دن دو بجے تک آفس کھلا ہوتا ہے۔افسردہ سا چہرہ لے کر میں پھر اسی طرح اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اس کے گھر پاس رک گیا۔اگلے دن آفس کی بجائے سب سے پہلے پارک گیا۔ضروری ڈاکومنٹس فل کر کے پارک کی ممبر شپ لی اور آفس چلا گیا

انتظار کرنے لگا کب شام ہو گی کب پارک جاوںگا۔ یہ شائد پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کسی لڑکی پر اتنا دل ہار بیٹھا میں۔آفس سے گھر آیا اور سیم ٹائم پر پارک چلا گیا اس سے کچھ فاصلے پر مینے گاڑی پارک کی۔ اس نے دائیں طرف سے جاگنگ کا راؤنڈ شروع کیا اور مینے بائیں طرف سے۔ جب درمیان میں کراسنگ ہوئی تو اس نے اچانک دیکھا اور گزر گئ شائد وہ پہچان گئ تھی مجھے۔ اگلے چکر میں گزرتے گزرتے بولی کانٹوں پر پاوں رکھیں تو پاوں ہی زخمی ہوتا ہے۔جوابا مینے کہا ارادہ کر لوں تو آگ میں بھی کود جاتا ہوں۔اس کے بعد کافی دن ہو گئے وہ نظر نہیں آئی پودوں کا پانی بھی اب مالی دیتا تھا

میں روزانہ اسے سوچتا اور دن گزر جاتا تقریباً ایک ماہ بعد اسے صبح پھر پودوں کو پانی لگاتے دیکھا شام کو پارک میں جاگنگ کے لیے گیا تو وہ پاس آ کر رک گئ۔اور کچھ پیسے مانگے اس نے مینے بولا پرس گاڑی میں ہے جا کر دیتا ہوں گاڑی تک جاتے اس نے بتایا میرا نام مریم ہے تعارف وغیرہ کروانے کے بعد مینے اس پوچھا اتنے دن کہاں غائب تھی تو بولی بہن کے پاس چھٹیاں گزارنے اٹلی چلی گئ تھی۔ خیر اسے پیسے دئیے اور وہ چلی گئ۔ اس کے اس طرح پہلی دفعہ ہی پیسے مانگنے پر ذہن میں اس کی بات یاد آئی کانٹوں پر چلیں تو زخمی پاوں ہی ہوتے ہیں۔لیکن اس کے پاس اتنے مہنگے برانڈ کا پرس موبائل فون اتنی اچھی گاڑی اور وہ مجھ سے چند ہزار ہی کیوں مانگے گی! کچھ دن بعد پھر اسی طرح اس سے ملاقات ہوئی توپھر اس نے پیسے مانگے اور مینے دے دیے۔

ایک دن آ کر رکی اور بولی آج کھانا اکھٹے کھائیں گے۔ ایک ریسٹورینٹ کا بتا کر چلی گئ کہ آٹھ بجے ادھر آ جانا۔جاتے جاتے نمبر دے گئ اپنا۔مقررہ وقت پر وہ بھی پہنچ گئ کھانا کھایا بہت ساری باتیں کی۔ جاتے وقت وہ ایک پارسل دے گی اس وعدے کے ساتھ بولی گھر جا کر چیک کرنا۔گھر گیا تو اندر پیسے تھے جو مینے اسے دیے تھے ساتھ اس نے لکھا تھا مجھے ضرورت تو نہیں تھی بس جان بوجھ کر مینے لیے تھے۔وقت گزرتا گیا دوستی آہستہ آہستہ محبت میں تبدیل ہونے لگی۔ فون پر گھنٹوں باتیں مہینے میں ایک دو دفعہ ہم باہر ڈنر کرتے تھے۔اس طرح سال گزر گیا اور دسمبر کا مہینے شروع ہو چکا تھا۔ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔لیکن میری ماں نے میرا رشتہ بچپن میں ہی سونیا سے تہہ کر دیا۔سونیا کا لاسٹ سمیسٹر چل رہا تھا۔

سونیا کے گھر والوں نے پیغام بھی بھیجا کہ سونیا کی پڑھائی کمپلیٹ ہو رہی ہے ہم اب چاہتے ہیں آپ شادی کے لیے مناسب وقت بتا دیں تاکہ جلد از جلد یہ فرض ادا کریں۔ جس کا ذکر مینے مریم سے بلکل نہیں کیا تھا۔ایک دن مریم بولی رات کو ہمارے گھر آنا میرے امی ابو آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔رات کو مریم کے امی ابو سے ملا تو وہ بہت ہی اچھی طبیعت کے مالک تھے۔ ان کے ساتھ ڈنر کیا چائے پی انھوں نے بتایا میری تین بیٹیاں ہیں دو بیٹیاں کنیڈا میں ہوتی ہیں۔ مریم سب سے چھوٹی ہے۔مریم کی ماما نے بتایا ہے آپ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو۔آپ کسی دن اپنے گھر والوں کو ہمارے گھر ڈنر پر لے کر آو۔میں سمجھ گیا یہ رشتے کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں ڈرتا امی کے آگے افف بھی نہیں کرتا تھا۔ تو ان کو مریم کا کیسے بتاتا دوسری طرف سونیا کے گھر والوں نے بھی پیغام بھیجا تھا شادی کی ڈیٹ فکس کریں۔ میں اب عجیب سی کشمکش میں پڑھ گیا۔مینے انکل کو بولا ضرور اس کے ساتھ ہی جلدی سے اجازت چاہی۔مریم کا میسج آئے 20دسمبر کو ہم کنیڈا جا رہے ہیں آپ جلدی سے اپنے گھر والوں کو لے کر آو تاکہ رشتے کی بات ہو۔

مینے ڈرتے ڈرتے امی کو خوشگوار موڈ میں دیکھتے ہوے مریم کا تھوڑا سا تعارف کروایا پھر کیا تھا جیسے قیامت آ گئ ہو۔امی نے ابو کو بھی سب بتا دیا۔امی سے ہمیشہ ڈانٹ ہی پڑتی تھی لیکن ابو ہمیشہ پیار سے سمجھاتے تھے۔ابو کہتے بیٹا تمھارا رشتہ بچپن سے تہہ ہے اب ایسا ہونا نا ممکن ہے۔پورے خاندان میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔خیر اگلے دن مینے ہمت کر کے مریم کو سب بتا دیا۔مریم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو نکل رہے تھے۔تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے کیوں چھپایا یہ سب کیوں میری زندگی برباد کی۔تمھاری خاطر مینے امیر سے امیر گھرانوں کے رشتے بھی چھوڑے۔تمھیں اپنی پہلی اور آخری محبت سمجھا لیکن تم نے میرے سارے خواب ادھورے چھوڑ دیے۔بہت سمجھایا مینے مریم کو لیکن وہ جیسے پاگل ہو گئ تھی اونچی اونچی چیخیں مار رہی تھی ارد گرد سب لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے۔وہ رات مینے جاگتے گزاری۔ پوری رات سوچتا رہا جب میری ماں نے میرا رشتہ بچپن میں تہہ کر دیا تھا تو مینے ایسا کیوں کیا۔اگلے دن دیکھا تو مریم کا نمبر مسلسل آف جا رہا تھا نا وہ جاگنگ کے لیے جا رہی تھی نا پودوں کا پانی دے رہی تھی۔میں ڈرتا اس کے گھر بھی نہیں جا رہا تھا۔

دو دن بعد بیس تاریخ کو اس نے اٹلی جانا تھا۔اچانک فون کی بل بجی فون اٹھایا تو مریم نے شام کو پارک میں ملنے کا بولا۔شام کو اس کے پاس گیا نا میک اپ نا اب وہ ہنسی اداس سا چہرہ مینے مریم کو بولا میری غلطی ہے مجھے معاف کر دو وہ روتے روتے میرے گلے لگ گئ اور بولی شائد میری قسمت میں ادھوری محبت تھی۔کہتی بہن کے پاس جاوں گی تو دل لگ جائے گا۔ اب شائد واپس پاکستان نا آوں تمھارے ماں باپ جیسے کہتے ہیں ویسے کرو جاو سونیا سے شادی کرو۔آج میری شادی کو چارل سال ہو گئے ہیں جب بھی دسمبر آتا ہے تو مریم کی طرف اسے پھولوں کا گلدستہ میرے آفس پہنچ جاتا ہے۔اسی طرح میں بھی مریم کو پھول اور ڈھیر ساری چاکلیٹ سونیا سے چھپ کر بھیج دیتا ہوں کیونکہ مریم کو چاکلیٹس بہت پسند تھی۔مریم نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ جب بھی اسے شادی کا کہتا ہوں تو وہ آگے سے کہتی ہے میری قسمت میں ادھوری محبت تھی بس۔

میں اکثر سوچتا ہوں مینے ایسا کیوں کیا جب بچپن سے میرا رشتہ تہہ تھا۔لیکن آجکل معاشرے میں یہ عام ہو چکا ہے۔مجھ جیسے بہت سے لڑکے جن کے آلریڈی رشتے خاندان میں تہہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ بہت ساری لڑکیوں کی ایسے زندگی تباہ کر دیتے ہیں۔ وقتی دوستی یا ٹائم پاس یا چھوٹی محبت کی خاطر ہم کتنا بڑا دھوکہ دے جاتے ہیں۔بجائے ہم کسی سے جھوٹی دوستی یا محبت کریں محض ٹائم پاس کرنے کی خاطر۔ ہمیں چاہیے دوسرے کو سچ بتا دیں تاکہ ہماری وجہ سے کسی کی زندگی تباہ نا ہو۔لڑکیاں بہت معصوم ہوتی ہیں اور باتوں میں بھک جاتی ہیں۔

نوٹ: یہ ایک فرضی کہانی تھی جو بیٹھے بیٹھے لکھ دی مینے۔لیکن حقیقت میں اس طرح کی کہانیاں روز سننے کو ملتی ہیں۔

خوش رہیں مسکراتے رہیں۔

Standard

اندھا اعتماد۔

میں ان دنوں بزنس کی وجہ سے کافی پریشان تھا۔اپنی فیکٹری اور فیکٹری کی جگہ سیل کر چکا تھا۔ کچھ نیا بزنس شروع کرنے کا سوچ رہا تھا۔دوست نے نئی گاڑی خریدنی تھی تو اتفاق سے اپنے ایک دوست کے ساتھ گوجرانوالہ کے ایک مشہور و معروف گاڑیوں کے شو روم پر جانا ہوا۔

ہم نے وہاں جا کر گاڑیوں کے ریٹ وغیرہ چیک کئیے لیکن کوئی گاڑی پسند نا آئی۔شوروم کے مالک عامر صاحب انتہائی مِلن نثار تھے۔بولے کچھ دن تک نئی گاڑیاں آ جائیں گی میں آپ کو کال کردوں گا۔امید ہے آپ کو مناسب ریٹ میں آپ کی پسند کی گاڑی مل جائے گی۔ہم نے اجازت چاہی تو بولے سردی کافی ہے اور میرا اصول ہے میں چائے اور کھانے کے بغیر نہیں جانے دیتا۔کھانا تو ہم گھر سے کھا کر نکلے تھے لیکن چائے کی دعوت قبول کر لی۔اور کھانے کا ہم نے وعدہ کیا جب اگلی دفعہ آئیں گے تو کھانا بھی آپ سے کھا لیں گے۔چائے کے ساتھ عامر صاحب نے ڈرائی فروٹس میں چلغوزے پستہ کاجو بادام بھی پیش کئیے۔ہم کافی متاثر ہوئے۔واپسی پر ہم سوچ رہے تھے۔آجکل تو کوئی سادہ چائے پلا دے تو غنیمت ہے۔

کچھ دن بعد عامر صاحب کے شوروم سے کال آئی نئی گاڑیاں آ گئ ہیں ۔ہم شوروم پر گئے تو ہمیں مناسب قیمت پر گاڑی بھی پسند آ گئ۔گاڑی خریدنے کے بعد عامر صاحب نے کھانے کا وعدہ یاد کروایا تو ہم شنواری پر مٹن کرائی کھانے ان کے ساتھ چلے گے۔راستے میں سگنل پر گاڑی رکی تو ایک مانگنے والا آیا تو عامر صاحب نے جیب سے ہزار کا نوٹ نکال کر اسے دے دیا۔کھانے کے دوران عامر صاحب سے کافی تفصیل سے بات ہوئی کچھ اپنا حال سنایا انھیں۔ کھانا کھانے کا بعد جب بل آیا تو عامر صاحب نے وہاں بھی کافی زیادہ ٹپ دے دی۔میں بزنس کے پوائینٹ آف ویو کے حوالے سے سب دیکھ رہا تھا۔خیر اجازت چاہی اور واپسی پر ہم یہ سوچتے رہے کہ اس کام میں کافی پیسہ ہے۔

کچھ دنوں بعد عامر صاحب کی کال آئی بولے آج شوروم پرایک چھوٹا سا ڈنر رکھا ہے آپ بھی ضرور تشریف لائیے گا۔ڈنر کے بعد انھوں نے کچھ دوستوں کو خاکی پیکٹ دینا شروع کر دئیے۔پوچھنے پر کہتے یہ ان کا پرافٹ ہے کچھ دوست گاڑیاں سیل کے لیے ادھر دے جاتے ہیں کچھ نے پیسے انویسٹ کئیے ہیں۔ ماہانہ جو بھی پرافٹ بنتا ہے ان کو دے دیتا ہوں۔

اسی طرح عامر صاحب کے ساتھ کچھ عرصہ دعوتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔جب بھی ان کے پاس جانا ہوتا ہمیشہ کی طرح وہ غریبوں میں اچھی خاصی رقم تقسیم کر دیتے تھے۔ مہنگے سے مہنگے برانڈ کے سیگریٹ ٹیبل پر پڑے ہوتے تھے۔ دوستوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میرے پاس فیکٹری اور پلاٹ کے جو پیسے تھے مینے بھی انویسٹ کر دئیے۔عامر صاحب کے گھر دو چار دفعہ جانا ہوا ان کی بیگم بھی بہت مِلن نثار تھی۔عامر صاحب کے ساتھ اتنا اچھا تعلق بن گیا تھا اکثر لاہور میں جب فیملی کے ساتھ جاتا تو عامر صاحب شوروم پر کافی بزی ہوتے تھے۔تو جاتے جاتے ان کی بیگم کو بھی ہم لاہور ڈراپ کر دیتے تھے۔ عامر صاحب خود گوجرانوالہ ایک سوسائٹی میں رہتے تھے اور ان کے سسرال لاہور میں تھے۔ آٹھ سال شادی کو ہو گئے تھے لیکن اولاد نہیں تھی ان سے ہر ماہ مجھے پرافٹ مل جاتا تھا میں کافی خوش تھا۔ مینے اپنے کافی دوستوں کو عامر صاحب سے ملوایا بہت سارے دوستوں نے میری طرح پیسے بھی انویسٹ کئیے۔

عید قریب آ گئ تھی عید کی چھٹیوں کے بعد شوروم بند تھا۔ عامر صاحب کا نمبر بھی بند جا رہا تھا۔ان کے گھر گئے تو پتا چلا وہ کسی اور جگہ شفٹ ہو گئے ہیں۔ ہمارے علاوہ اور بھی بہت سارے لوگ تھے جنھوں نے پیسے انویسٹ کئیے تھے۔ آخرکار سب نے مل کر پولیس کو کمپلین کئ اور شوروم کا دروازہ توڑا وہاں صرف ایک خط پڑا تھا جس پر لکھا تھا آپ سب دوستوں سے معزرت مجھے تلاش کرنے کی کوشش مت کرنا کیونکہ میں پاکستان چھوڑ چکا ہوں۔جس گھر میں وہ رہتے تھے وہ کرایہ کا مکان تھا جو کسی پراپڑتی ڈیلر کے تھرو حاصل کیا گیا تھا۔سب ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ آپ ان کی بیگم کو سسرال چھوڑ کر آتے تھے تو ان کے سسرال جاتے ہیں۔لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا ان کی بیگم لاہور یادگار کے پاس اتر جاتی تھی وہاں ان کا ڈرائیور ہوتا تھا آگے اس کے ساتھ چلی جاتی تھی۔

اس واقع کو تقریباً آٹھ سال ہو گئے ہیں ۔یہ ایک سچا واقع ہے جو میرے ایک جاننے والے کے ساتھ پیش آیا تھا۔نا آج تک عامر صاحب ملے نا ان کی بیگم ۔سب کے جتنے جتنے پیسے تھے سب ڈوب گئے۔اس لیے کسی اجنبی پر اندھا اعتماد کر کے اپنی محنت کی کمائی برباد نا کریں۔اس طرح کے جو نوسرباز ہوتے ہیں وہ دکھاوے کے لیے پہلے خود پیسے خرچ کرتے ہیں اعتماد حاصل کرتے اور اس کے بعد بہت بڑا فراڈ کر جاتے ہیں۔اور ہمارے پاس ہھر پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔پولیس انسوٹیگیشن میں سب کا ایک ہی جواب تھا چائے مٹن اور مانگنے والوں کو ہزار ہزار کا نوٹ دیکھ کر ہم اس کے فریب میں آگئے۔ ۔شوروم کا نام مینے خود مینشن نہیں کیا۔

خوش رہیں خوشیاں بانٹیں ☺️

Standard